Wednesday, August 26, 2020

ASGHAR NADEEM SAYYED REGRETS!

 *معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کا فکر انگیز نوحہ*

میں ایک یونیورسٹی پروفیسر ہوں۔ اپنی مدت ملازمت پوری

ہونے پر ریٹائر کر دیا گیا ہوں۔ مجھے بخوشی فارغ کر دیا گیا کیونکہ جو میں پڑھانا چاہتا تھا، مجھے نہیں پڑھانے دیا گیا۔ اوسط درجے کے معمولی چاپلوس پروفیسر مجھے شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔حاسد اور حسرتوں کے مارے پروفیسر میرے خلاف نالائق طالب علموں کو استعمال کر کے سازشیں کرتے تھے۔میں خاموشی سے سب دیکھتا رہا۔ باہر کی یونیورسٹیوں اور ملکوں سے کانفرنس میں شرکت کے دعوت نامے غائب کرتے رہے۔ مارشل لاء حکومتوں میں میرے جیسے اساتذہ کے خلاف پمفلٹ نکالتے رہے۔ خوشامد کے زور پر ہر طرح کی ترقیاں لینے والے Best Teacher ایوارڈ لیتے رہے۔ پڑھانے کی بجائے وائس چانسلروں کے ذاتی کام کرتے رہے۔ ترقیوں کے لئے ریسرچ کے نام پر بھوسہ بھرے پیپرز چھپواتے رہے۔ بڑی کامیابی سے غیر جمہوری حکومتوں کو اخلاقی جواز فراہم کرتے رہے۔ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کا نعرہ لگانے والے جابر سلطانوں کے جوتے چاٹتے رہے۔ میں یہ سب دیکھتا رہا۔ میں اُن کی بنائی ہوئی، ترتیب شدہ کتابیں پڑھانے پر مجبور ہوتا رہا۔ یونیورسٹیوں کے کلچر میں علم اور شفافیت کی جگہ تعصب، تنگ نظری اور سازشوں کو پلتے دیکھتا رہا۔ ہم اندھوں میں کانے راجے پیدا کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتے رہے۔

میں جو پڑھانا چاہتا تھا، نہ پڑھا سکا اور جو نہیں پڑھانا چاہتا تھا وہ پڑھانے پر مجبور ہوا۔ آج اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے جو شاگرد پیدا کیے وہ ڈاکٹر، انجینئر، بینکر اور اُستاد بنے۔ مگر اُن میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ اس کا اندازہ مجھے وقتاََ فوقتاََ ہوتا رہتا ہے۔ جب میں اپنے زخموں کے علاج کے لئے چھ دن ہسپتال میں رہا تو چھ لاکھ کا بل دیکھ کر بلبلا اُٹھا۔ میرے کسی شاگرد نے کان میں کہا، ’’سر یہ تو آپ کو دینا پڑے گا کہ آپ نے ہمیں جو پڑھایا اُس میں تو یہی کچھ ممکن ہے۔‘‘ پھر جب میں انجیوگرافی کے لئے داخل ہوا تو میرے شاگرد ڈاکٹر نے میرے کان میں کہا، ’’سر اگر سرکاری علاج کرانا ہے تو دو سال بعد باری آئے گی اور اگر جیب سے علاج کرائیں گے تو دس منٹ میں باری آجائے گی۔‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا اس نے کہا ’’جو آپ نے پڑھایا اُس میں بس یہی ہو سکتا ہے۔‘‘ ایک دن کسی کام سے سیکریٹریٹ گیا۔ سیکریٹری کو نام کی چٹ بھیجی، اُس نے نہیں بلایا۔ میں ڈھیٹ بن کے بیٹھا رہا۔ جب وہ کسی میٹنگ میں جانے کے لئے نکلا تو میں سامنے آ گیا۔ میں نے کام بتایا۔ اس نے کہا ’’سر یہ کام ممکن نہیں ہے۔ آپ نے ہمیں جو پڑھایا تھا اُسے بھلانے میں بہت وقت لگا ہے۔ بڑی مشکل سے وہ سب بھلا کر اس جگہ پہنچا ہوں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ ایک دن میرے گھر کی بجلی کئی گھنٹے تک نہ آئی تو میں ایس ڈی او کے پاس گیا اور اُس نے مجھے دیکھ کر کہا۔ ’’سر جو کچھ آپ نے ہمیں پڑھایا تھا ۔اُس میں تو یہ جو بجلی آپ کو مل رہی ہے۔ یہ بھی نہیں ملنی چاہیے۔‘‘

آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں نے لولی لنگڑی اور اداس نسلیں پیدا کرنے میں حصہ لیا ہے۔ تنگ نظری اور تعصب نے پڑھے لکھوں میں کیسے راستہ بنایا۔ پھر کس طرح انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ کس طرح بڑے بڑے کالم نگاروں، سیاسی رہنماؤں، دانشوروں اور بیوروکریٹس نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو جواز فراہم کیے۔ جب ایک خودکش حملہ آور اپنے دل، دماغ اور آنکھ پر پٹی باندھتا ہے تو اس کا ذمہ دار میں اپنے آپ کو سمجھتا ہوں۔ یونیورسیٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر معصوم اقلیتوں اور مسلمانوں کو جب عبادت گاہوں میں بارود سے اڑاتے ہیں تو اس میں کچھ حصہ میرا بھی ہے۔

آج میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے کیا پڑھانا چاہیے تھا۔ میری بڑی خوہش تھی میں یہ پڑھاؤں کہ اللہ کو خوبصورتی پسند ہے۔ جمالیات کیا ہوتی ہے۔ اس کا فلسفہ کیا ہے۔ جمالیات کے فلسفے پر کئی کتابیں موجود تھیں۔ ہم نے اُن کی طرف رجوع نہ کیا۔ جمالیات کو سمجھے بغیر ہم سبحان اللہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتے۔ مجھے کسی نے یہ پڑھانے نہیں دیا کہ خوبصورتی کی تحسین کیسے کرنا ہے۔ اس میں تمام فنون لطیفہ کی بحثیں آ جاتی ہیں۔ میں جغرافیہ لازمی کرنا چاہتا تھا کہ اللہ کو سمجھنے کی سیڑ ھی جغرافیہ ہے۔ اُس کی زمینیں، اُس کے موسم، اُس کے جنگل، اُس کے دریا، اُس کے سمندر اور پھر سمندروں میں حیات، جنگلوں میں حیات۔ پرند چرند۔ اُن کی نسلیں۔ ان کی عادات کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ جانوروں سے وابستہ منفی تصورات کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ یہ کام ہم نے نہ کیا، غیروں نے کیا۔ نیشنل جیو گرافک چینل سے بہتر یونیورسٹی نہیں ہے۔

میں پڑھانا چاہتا تھا کہ ہماری تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے۔ میں انسانی تاریخ پڑھانا چاہتا تھا۔ مجھے اغواء شدہ پاکستانی تاریخ پڑھانے پر لگا دیا گیا۔ ظالم بادشاہوں کے قصیدے پڑھنے والے مؤرخوں نے وہ ٹیڑھی اینٹ رکھ دی جس پر جو عمارت بھی تعمیر ہوئی اُس کی غلام گردشوں میں ضیا الحقوں نے ٹک ٹکیاں لگا دیں۔ پپو کے قاتلوں کی پھانسی کے میلے میں پٹھورے اور گول گپے بیچنے والوں نے چاندی کمائی اور انسانوں کو بے حس کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔ میں تاریخ مسخ کرنے والوں کی نشاندہی کرنا چاہتا تھا۔ مجھے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ کن لوگوں نے نظریہ پاکستان کو پوری قوم سے ٹھگ لیا۔ اور پھر اُس پر لمبی چوڑی مارکیٹنگ کی۔ جو اب تک جاری ہے۔ میں طلبا کو بتانا چاہتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں، کن کونے کھدروں سے کیڑے مکوڑوں کی طرح نکلے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر قائد اعظم کو ٹھگنے والے بونوں اور ٹھِگنے قد کے لوگوں کو طلباء سے متعارف کرانا چاہتا تھا۔ مجھے روک دیا گیا۔ میں طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا کہ ایوب خان کس طرح فیلڈ مارشل بنا اور اُس کے مشیروں نے ادب اور ادیبوں کو خرید نے کے لئے کس طرح کے گماشتے مقرر کیے۔ اُس نے شاہی قلعے میں حسن ناصر کو کیسے شہید کیا۔ کس طرح دانشوروں، سیاست دانوں اور باضمیر لوگوں کو ساری رات جگانے کے لئے حربے استعمال کیے۔ ان کے ناخن کس طرح پلاس سے اکھاڑ ے گئے۔ کس طرح ان کی چیخوں کو دبانے کے لئے اقدامات کیے گئے۔ ضیا الحق نے کس طرح ادیبوں، شاعروں، وکیلوں (اُس وقت کے وکیلوں) کسانوں اور صحافیوں کے ننگے جسموں پر کوڑوں کے ساتھ گرم پانی کی بوچھاڑ کروائی۔ کس طرح یہ لوگ پاگل ہوئے اور اُن کے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اداکارہ شبنم کیس میں راتوں رات ضیاء الحق نے پھانسی کے مجرموں کو کس طرح معافی دلوائی۔ کون شبنم کے گھر گیا اور اُس سے معافی نامہ لے کر آیا۔ میں یہ طلباء کو بتانا چاہتا تھا۔

میں طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا کہ سعادت حسن منٹو جب پاکستان آئے ہم نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ چھوٹی عدالتوں میں کس طرح ذلیل کیا۔ روزگار کے سارے دروازے بند کر دِیئے۔ دس روپے میں تخلیقی مشقت پر افسانہ لکھوایا۔ قسطوں میں نہیں، یک مُشت مرنے پر مجبور کر دیا۔ پاک ٹی ہاؤس میں اُسے دیکھ کر قیوم نظراور شہرت بخاری ٹائلٹ میں ڈر کے کیوں گھسے تھے۔ بقول منٹو اُس نے تو کبھی بھی اُن سے اُدھار نہیں لیا تھا۔ میں منٹو کے افسانے، ’’کھول دو‘‘، ’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ ،’’موذیل‘‘، ’’بابو گوپی ناتھ‘‘، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’ شہید ساز‘‘ اور ’’ننگی آوازیں‘‘ پڑھانا چاہتا تھا۔ کورس مرتب کرنے والوں نے مجھے روک دیا اور جن اصحاب علم وادب نے یہ راستہ روکا وہ اس وقت بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پروفیسر ایمریطس ہیں۔

میں فیض کی نظم ’’ڈھاکہ سے واپسی پر‘‘ پڑھانا چاہتا تھا اور طلباء کو اس مصرعے کا مطلب سمجھانا چاہتا تھا۔ ’’خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘‘۔ میں ناصر کاظمی کی غزل طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا۔ جو سنہ 1971ء کے بعد لکھی گئی۔ ’’وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے‘‘ مجھے بس یہ بتانا تھا کہ وہ بھٹیالی گانے والے ہمارے طرزِ احساس سے کیسے نکل گئے اور مشرقی پاکستان کی ستاون فلمیں جو یہاں ریلیز ہوئیں وہ ہماری فلم انڈسڑی کو یکسر تبدیل کرنے ہی والی تھیں کہ سفر رُک گیا۔ میں بتانا چاہتا تھا کہ قرۃالعین حیدر، بڑے غلام علی خان اور ساحر لدھیانوی پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے اور سجاد ظہیر کو مچھ جیل میں کیوں بند کیا گیا۔ میں بہت کچھ پڑھانا چاہتا تھا۔ انتظار حسین کا ’’شہر افسوس‘‘، ’’ بستی‘‘ اور ’’ہندوستان سے آیا ہوا خط‘‘ مجھے نہیں پڑھانے دیا گیا۔ میں امر جلیل کی کہانیاں اور شیخ ایاز کی نظمیں پڑھانا چاہتا تھا۔ اور وہ سارا عالمی لٹریچر اور اپنی زبانوں کا لٹریچر جسے ہم نے اپنے طلباء سے چھپا لیا، وہ سب پڑھانا چاہتا تھا۔ اس طرح میں بھی کوتاہ قد رہ گیا اور میرے طلباء بھی۔

آئینیسکو نے ایک ڈرامہ لکھا تھا، ’’ کرسیاں (The Chairs)‘‘۔ اس میں ایک ریٹائرڈ افسر رات کے کھانے پر شہر کے تمام بڑے عہدے والے افسروں کو دعوت پر بلاتا ہے۔ جب وہ ایک ایک کر کے آتے ہیں تو سٹیج پر اُن کے وجود کے بجائے اُن کی صرف کرسیاں رکھی جاتی ہیں۔ ان کرسیوں سے میزبان گفتگو کر کے بتاتا ہے کہ صاحبو درحقیقت تو تم صرف کرسیاں ہو۔ تم اس سسٹم میں اپنی شناخت گم کر بیٹھے ہو۔ میں بھی ایک ڈنر پر سب بڑے لوگوں کو بلا کر یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں جو پڑھانا چاہتا تھا کیوں نہیں پڑھا سکا۔ مگر میرا یہ اعتراف صرف خالی کرسیوں سے ہو گا کہ وہ سب افسر اپنا وجود نہیں رکھتے۔

 ادیبوں کو خرید نے کے لئے کس طرح کے گماشتے مقرر کیے۔ اُس نے شاہی قلعے میں حسن ناصر کو کیسے شہید کیا۔ کس طرح دانشوروں، سیاست دانوں اور باضمیر لوگوں کو ساری رات جگانے کے لئے حربے استعمال کیے۔ ان کے ناخن کس طرح پلاس سے اکھاڑ ے گئے۔ کس طرح ان کی چیخوں کو دبانے کے لئے اقدامات کیے گئے۔ ضیا الحق نے کس طرح ادیبوں، شاعروں، وکیلوں (اُس وقت کے وکیلوں) کسانوں اور صحافیوں کے ننگے جسموں پر کوڑوں کے ساتھ گرم پانی کی بوچھاڑ کروائی۔ کس طرح یہ لوگ پاگل ہوئے اور اُن کے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اداکارہ شبنم کیس میں راتوں رات ضیاء الحق نے پھانسی کے مجرموں کو کس طرح معافی دلوائی۔ کون شبنم کے گھر گیا اور اُس سے معافی نامہ لے کر آیا۔ میں یہ طلباء کو بتانا چاہتا تھا۔

میں طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا کہ سعادت حسن منٹو جب پاکستان آئے ہم نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ چھوٹی عدالتوں میں کس طرح ذلیل کیا۔ روزگار کے سارے دروازے بند کر دِیئے۔ دس روپے میں تخلیقی مشقت پر افسانہ لکھوایا۔ قسطوں میں نہیں، یک مُشت مرنے پر مجبور کر دیا۔ پاک ٹی ہاؤس میں اُسے دیکھ کر قیوم نظراور شہرت بخاری ٹائلٹ میں ڈر کے کیوں گھسے تھے۔ بقول منٹو اُس نے تو کبھی بھی اُن سے اُدھار نہیں لیا تھا۔ میں منٹو کے افسانے، ’’کھول دو‘‘، ’’ٹھنڈا گوشت ‘‘ ،’’موذیل‘‘، ’’بابو گوپی ناتھ‘‘، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’ شہید ساز‘‘ اور ’’ننگی آوازیں‘‘ پڑھانا چاہتا تھا۔ کورس مرتب کرنے والوں نے مجھے روک دیا اور جن اصحاب علم وادب نے یہ راستہ روکا وہ اس وقت بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پروفیسر ایمریطس ہیں۔

میں فیض کی نظم ’’ڈھاکہ سے واپسی پر‘‘ پڑھانا چاہتا تھا اور طلباء کو اس مصرعے کا مطلب سمجھانا چاہتا تھا۔ ’’خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘‘۔ میں ناصر کاظمی کی غزل طلباء کو پڑھانا چاہتا تھا۔ جو سنہ 1971ء کے بعد لکھی گئی۔ ’’وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے‘‘ مجھے بس یہ بتانا تھا کہ وہ بھٹیالی گانے والے ہمارے طرزِ احساس سے کیسے نکل گئے اور مشرقی پاکستان کی ستاون فلمیں جو یہاں ریلیز ہوئیں وہ ہماری فلم انڈسڑی کو یکسر تبدیل کرنے ہی والی تھیں کہ سفر رُک گیا۔ میں بتانا چاہتا تھا کہ قرۃالعین حیدر، بڑے غلام علی خان اور ساحر لدھیانوی پاکستان چھوڑ کر کیوں چلے گئے اور سجاد ظہیر کو مچھ جیل میں کیوں بند کیا گیا۔ میں بہت کچھ پڑھانا چاہتا تھا۔ انتظار حسین کا ’’شہر افسوس‘‘، ’’ بستی‘‘ اور ’’ہندوستان سے آیا ہوا خط‘‘ مجھے نہیں پڑھانے دیا گیا۔ میں امر جلیل کی کہانیاں اور شیخ ایاز کی نظمیں پڑھانا چاہتا تھا۔ اور وہ سارا عالمی لٹریچر اور اپنی زبانوں کا لٹریچر جسے ہم نے اپنے طلباء سے چھپا لیا، وہ سب پڑھانا چاہتا تھا۔ اس طرح میں بھی کوتاہ قد رہ گیا اور میرے طلباء بھی۔

آئینیسکو نے ایک ڈرامہ لکھا تھا، ’’ کرسیاں (The Chairs)‘‘۔ اس میں ایک ریٹائرڈ افسر رات کے کھانے پر شہر کے تمام بڑے عہدے والے افسروں کو دعوت پر بلاتا ہے۔ جب وہ ایک ایک کر کے آتے ہیں تو سٹیج پر اُن کے وجود کے بجائے اُن کی صرف کرسیاں رکھی جاتی ہیں۔ ان کرسیوں سے میزبان گفتگو کر کے بتاتا ہے کہ صاحبو درحقیقت تو تم صرف کرسیاں ہو۔ تم اس سسٹم میں اپنی شناخت گم کر بیٹھے ہو۔ میں بھی ایک ڈنر پر سب بڑے لوگوں کو بلا کر یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں جو پڑھانا چاہتا تھا کیوں نہیں پڑھا سکا۔ مگر میرا یہ اعتراف صرف خالی کرسیوں سے ہو گا کہ وہ سب افسر اپنا وجود نہیں رکھتے۔

Saturday, August 15, 2020

THAT'S HOW WE CELEBRATE OUR INDEPENDENCE DAY!

MAHTAB BASHIR

mahtabbashir@gmail.com

0333 53 63 248

Islamabad


The covid19 pandemic is not over but our youth is- as soon as we are relaxed on this Independence Day of (August 14), every one turns up the roads. The green and white is everywhere in the streets- and so is hooliganism, blowing crackers, aerial firing, and silencerless bikes. This is how we celebrate our ‘Freedom Day’.    

Aerial firing, riding bikes at high speed without silencers, blowing crackers and fireworks arms and eve teasing is the way we tend to celebrate our important days and festivals, especially 14th of August- our Independence Day.

Celebrations are another name of indecent display of rowdiness across the country. Although everyone gets excited and proud on August 14 and wants to share the happiness and joy with other countrymen, but getting outside the house with family means meeting ruffian youth on the back of bikes and other thugs occupying the roads.

One wants to get out of the house with the family and enjoy the decorated buildings, and lighting on the towers and mosques, but it is impossible to go to these places and enjoy a nice time with family members due to rowdy youth who are oblivion of Covid19 as well.

This attitude has become the hallmark of the way we celebrate Eid, Ramadan, Independence Day and all other auspicious occasions.

When this scribe contacted a number of people from various segments of society and from varied age, they blame illiteracy and poverty behind this indecent hooliganism while few opines because of Covid19, we have been contained in four walls of house- this is the rights time for celebrations (of our freedom Day).

Social behavior is an advanced action which directs specific behavior towards others. A majority of our youth not only illiterate but also literate have psychological problems so when they step out on the streets, there mannerism, attitude and respect for other changes for the worse, they opined.

A number of people told this scribe that if ever there was a time to demonstrate just what the real meaning and significance of Independence Day was, this was the right time.

Another August 14 has been celebrated yesterday. Thousands of youngsters in green and white poured on to the streets, but does it made a little difference?

It is often said that youngsters are the future of this country. Pakistan is the country with maximum population of youth; the one which is seen one wheeling from Faizabad Interchange to Constitution Avenue in Islamabad.

Others show their love for Pakistan by lighting fire crackers, some performing stunts on bikes at high speeds, not knowing that slipping an inch could cost them their life.

M Ibrahim, a young boy at Jinnah Super Market said Independence Day should be celebrated in a simple manner, but first of all we have to show solidarity with one another. Get clear of the thoughts of racism, we are not five, we are one! God never asked me if I wanted to be a Punjabi, Sindhi, Pathan, Baloch or Gilgiti. We are Pakistanis and we should celebrate our day of independence showing unity, he said.

Another said we must carry on with this passion of I-Day throughout the year. We are at war, real war. We are facing challenges and crisis. We are down and we are bruised. We are threatened by terrorism and we are choking under a huge debt. If we are to address issues of poverty, hunger, desperation, law and order, we need to do so not by treating the cancer with aspirin but with radical surgery. We have to do it ourselves.

Osama Pervaiz believed the media could bring about a positive change and make the youth aware of what to do and what not to do on August 14 for the betterment of our country. If our next generation can come forward and take charge and get all politicians and other corrupt people who are proven guilty by the law, are actually sentenced, govt. would love to spend more on health and education sector- this country can breathe for a brief time independently in real terms. Then I can spend the Independence Day with wearing green and white, a flag in my hand, and dancing madly on the tunes of national songs.

Also published in Pakistan Today 

Saturday, August 8, 2020

SHAKIL AKHTER: AN ANGEL IN DISGUISE FLIES BACK TO HEAVEN

OBITUARY COLUMN:

MAHTAB BASHIR
mahtabbashir@gmail.com
0333 53 63 248
ISLAMABAD

The Almighty saw you getting tired.
And a cure was not to be. 
So he put His arms around you,
And whispered, "Come to me". 
With tearful eyes we watched you,
And saw you pass away;
Although we loved you dearly,
We could not make you stay.
A golden heart stopped beating,
Hard working hands to rest.
Allah broke our hearts to prove to us,
He only takes the be
st.

This is a tale of a self-made individual who dedicates his laborious life to his family members. But, just at the time of the celebrations, he says adieu to all of his dear ones. He epitomizes all the qualities of a hardworking, caring and loving persona to an extent that each family member claim he loves him/her the most. 

I believe, he is an angel in disguise, who amid Covid 19 pandemic covers non-stop distance of 8443 km from Barcelona (Spain) to Lahore (Pakistan) with acute liver cirrhosis, comes home on May 14, looks around for a while, spends a b
rief time with his wife Samina, daughter Maira (20), Son Talha(18) and then suddenly flutters his wings and disappears for good on Saturday, June, 6, 2020. 

His dejected looking daughter Maira says, “As I come to know Papa is suffering with liver disorder and his kidneys are also infected, I start reading the symptoms and remedy. I chat him on and off on video call, he looks pale with merely weighing 30-35KG. None of us or even Papa himself ever thinks to turn back to us after two decades, with such a fragile health”. 

“On May 14, he reaches Lahore and on the same day I meet him in National Hospital, Lahore. He is not able to talk but whisper. Spontaneously, he asks “O mera bara beta a gia hay, kia hal hay puttar,” she maintains adding Papa while looking at Talha says, “If I get better, I will send you abroad for studies, and if I’m not- don’t weep. She says the very next day, I meet him again, and he gifts me his (own) mobile set, that gives me a clear indication that his days are numbered but I continue to pray for a miracle. 

An altruistic soul, Shakil Akhter, lives an overwhelming life. Spending more than half of his life abroad, while he persistently keeps in touch with his family on daily basis, no matter, wherever he is.

As an MBA graduate, he is an avid reader and loves to go places. He visits all major countries of Europe as well and shares us that various flavours and diversity of all countries.

Since our childhood, we used to play cricket and participate in every tournament held at any nook and corner of the Federal Capital. With his jerky action, he is too quick for the batsmen and being a left hander he is our trump card (in bowling). We often visit places. Whenever, he comes to Islamabad, hiking at Margalla trails is inevitably included in his schedule.

Last three weeks (of his life), Shakil spends among his family members, are mixed bag of emotions- love, fear, anger, dedication, care, trust, anguish and hope, to say the least. But a sense of responsibility to live with his kids constantly observed in him as he wants to get rid of his ailment.

Shakil is larger than life and is most energized by being right in the middle of the action wherever he goes. He is always laughing and smiling, and has something money cannot buy – his charisma. But those 21 days, he spends with family members’, he remains numb because of his dwindled health. Everyone including his kids keep asking as what he thinks- he looks up the heaven and then closes his eyes. It is a moment of anxiety.

He often repents that his family members are standing beside his bed, and he is not able to greet them, or to do something for them. He wants to help them in all means. He apologizes all of them for being staying apart for decades. It is a time of unusual thoughts. Sigh!

He has tremendous generosity and care for others; he is loving, understanding, and nonjudgmental. His proudest accomplishments are his kids. He will be remembered as a family man, as a father to his kids, and as the guy to call when anyone need support.

In early 2000, Shakil is the one who makes me technology savvy. First he donates me Nokia 8210 (a chic and trendy hand set), later a smart phone of Samsung (when it was not so common in this part of the world) and later I become an owner of a Sony Vio laptop.

Shakil Akhter is a clairvoyant who wants to have eternal sleep beside his late Mother- and this intense wish ultimately, fulfills on Saturday morning, June 6, when he departs for Heaven.

This scri
be finds Shakil Akhter does not have role-models but two- his mother (my Phupho) who expires in 1992 when he is a school-going kid and Moazzam Bhashir (my brother) who disappears in 2008. http://mahtabbashir.blogspot.com/2008/03/my-brother-walking-lexicon-walks-away.html

As a youngest among his siblings, he is the most pampered of family and in particular the most closer to his mother. I remember, long ago, when I ask Shakil, “You are a bike-lover, than how you are switched to a 4-wheeler”? He smiles and replies- “because of my ailing mother”. 

In 2003, an Indian romantic drama film titled “Tere naam” releases. Wheneve
r, I travel along Shakil on a four wheeler, I find only one played song of the movie “tere naam, hum nay kiya hay....”. Without asking the reason, he says, “… it’s a dedicated song to my mother- now and forever”. 

His last post (of life) on facebook appears on April 23, 2020. I hurriedly call Samina (my sister and his wife) just to let her know that Shakil is getting better with an impression (of writing by his own).

It (the post pictured) reflects his love for his mother, inscribing “Dear mother, why don’t you come in my dreams? Always love you till I come to you or even Roz-e-Qiyamat will hold your finger. You know everything, my dear Mom”. The post is attached with an emotions pack tribute with a song from “Tare Zameen Par”- Tujhay sab hay pata- haina Maa- a song that captures every child’s emotions for his mother. https://m.youtube.com/watch?v=LGuovVCTQYg&feature=youtu.be

Shakil Akhter’s maiden overseas journey is of Australia in 1997. He returns back to Pakistan in 1999, and ties the knot in the same year. In August, 2000, Maira (to whom he calls Bara Beta) and in 2002 Talha is born.

With the completion of family, in 2004, he again packs up for England to earn for family. In 2007, he visits Pakistan for a short period (of a month). From 2008 till 2020, he settles in England and later in Spain.

Time continues to fly, he remains in touch with his wife Samina, his kids and all the near and dear ones on a daily basis. He cares for his wife and kids to an extent that he fulfills their wishes in a time as quick as one’s blink his eyes. He never forgets birthdays’ celebrations as he sends (surprise) gifts to his wife and kids all the way from Barcelona.

Fast forwarding, after two decades, amid the Covid-19 pandemic, there comes a moment when Shakil reaches back home from Spain. On the wee hours of May 14, (Thursday), when the plane touches the runway of Allama Iqbal International, everything looks unusual to him.

Liver cirrhosis makes him lean, sedated and exhausted. He continues to fight against it valiantly. He feels comfort as soon as he finds his family members around him. He knows well, his days are numbered but has high hope, courage and unflinching willpower to live on. On May 30 (Saturday) at 7:17am, a week before his expiry, I heard his voice for the last time. 

Samina Shakil, the deceased’s wife while talking to this scribe says, “He (my husband) hates procrastination, every time I talk to him on a video call or an audio, he insists to complete all the undo works, whether they are big or small (in nature). He is a “do it now” sort of a person who advises the same to his kids and other family members. He wants every task to be completed in real time with perfection and without delay. Perhaps that’s why, he leaves us with the same (quick) pace”. 

When asked, he lives for three weeks here, what does Shakil emphasizes, she says, “There are two heroes in his life, his mother (my Phupho) and Moazzam bhai (my elder brother). Whenever he whispers, I could hear he is remembering these two. He wants to meet his mother and he lives to fight against this deadly disease like Moazzam Bhai did. He does the both acts and that too so quickly. I wish he could spend some time more with me and kids and also to see all renovated rooms but this not happens (with the will of Allah).    

Narrating an incident of his initial ailments (couple of months back), Samina says “During his ailing days, once Bushra (his sister) takes him on video conference call and after a while Maira (our daughter) also appears on screen. As soon as Maira glances his Papa, she forgets to speak a single word. He looks pale and his weight is reduced drastically. She keeps on staring him and ends up with tears rolling down her cheeks. Her father reacts in same manner”, she maintains adding Shakil later, says to avoid repeating this act in future because Maira knows it all (about my disease). 

One of the most courageous women on this planet earth, Samina opines, “During our 21 years marital life, we remain intact for only 5 years (including those last three weeks he spends here). In hospitals, he persistently holds hands of Maira and Talha and repeatedly whispers me to take care of both. We have been doing Iftari and Sehri in hospital at times, we all pray for just one more miracle of Shakil's recovery during this Holy month, but...". 
She says, “I’ve noticed, for the last many months, Shakil is disturbed. But he avoids sharing with me. May be because of that immigration card, or may be something else. But he is perturbed for sure.” She says her husband is a superlative introvert, but I trust him for life.

Shakil's flabbergasted brother, Ishtiaq Ahmed, who is his companion of all weathers and residing in Spain, says, “I have no words (for dear departed). No one recognizes Shakil (in deeper sense) as I do. He is a gem of a person. The way he fights against this deadly disease- I assure you two giant elephants could have been surrendered too earlier. He is not only my brother but my best friend- or my everything to say the least,” adding every moment spend with Shakil is my treasure- and I will love to live with it.

He says, “Now, he is no more around me, this house (in Barcelona) has become a haunted one. Time is not a healer for me- and I will not get rid of this shock. May the Almighty give him superlative spot in Heaven”.

Dr. Noman Iftikhar, living in Australia, says, “All my life, I’ve been closest to Shakil. Unfortunately, at the final stage of liver cirrhosis that converts into liver Cancer, only dua is the most effective medicine. He could have not survive the severe attack in the mid of December, 2019, had he been in Pakistan or any other place. Shakil gets the best treatment in Spain but it is the will of the Almighty. I don’t have words to utter, I’m astounded- I am in pain”.

Rizwan Anjum, who is in UK while paying tribute to Shakil, says “he has lost the asset of his life. I met this angel 43 years ago, he promised to be with me throughout his life. Then he becomes my life-time companion. On June 6, my companion leaves me in a lurch. He is (indeed) an angel. This pain is eternal,” he maintains.

Bushra Anwaar, sister of Shakil while remembering his brother says, Shakil is a workaholic person- who earns for his family while staying away from all of them. “He worked 20 hours a day at times. Often his neighbors’ ask him why are you paying the rent, if you come here to spend only one or two hours.”

She says he is the most pampered child of our family, the closet to our mother. During his ailing days, he often gets annoyed when I call him- because of his serious condition. But within few days time, he calls me back asking, “where were you, I have not received a call from you since couple of days, are you angry...?”

Shakil’s son Talha says “He (papa) paved for us a life full of great possibilities, abundance of hope and a plethora of privileges, which, when we introspect, would not have ever materialised without his empowering presence in the family and infinite contributions.

Rounding off this write-up, I must say the void that has encapsulated our lives in the wake of Shakil Akhter’s absence knows no bounds. From the day we were together till the day he passed away, he had always made it a point to shield us from each and every unfavourable circumstance that hit our paths- that’s what his family members, relatives, friends and hundreds of mourners from Canada to USA, England to Australia and Lahore to Islamabad, observe on the sad day of June6, 2020. 
As a tribute to him, this essay offers snippets of his life and brings together some relevant anecdotes and reflections, which have social and historical significance.

It would be a sheer injustice if I forget to acknowledge the services of Ishtiaq Ahmed (his brother in Spain) who is a great source of strengthen and inspiration during the laborious work in the ill-fated days from dawn to dusk. He single-handedly or should I say “single-leggedly” (because of his fractured leg) looks after Shakil for the months- that would not be easily forgotten.

Words are totally inadequate to express my thanks to Editor Daily Dunya, Islamabad Muhammad Adil, my office colleagues and hundreds of friends from print, electronic and social media, for their confidence and help extended to us.

I owe a huge debt of gratitude to all the relatives who assist and help him from the day of his arrival to Pakistan (May 14) to his departure to Heaven (June 6). Their efforts are literally unparallel whose reward will be bestowed to them by the Almighty in this world or hereafter.

Words fall short to thank Pakistan Consul General in Barcelona (Spain), Imran Ali Chaudhary whose’ unflinching efforts make the miracle of bringing Shakil back to Pakistan when the world is halted, air flights are grounded because of Covid-19 Pandemic and Physicians team disallow him to travel. 
Imran Chaudhary’s imperative role in difficult moment would never be compensated even by my posterity. He, indeed, belongs to that rare breed of bureaucracy who reaches down and lifting people up. During these hard days, to say the least, his response is quick. He (always) calls me back, whenever I send him a text message (casually). He is a saint in bureaucrat's clothing. May the Almighty Allah give him more power, prosperity and health to keep going…!

Shakil Akhter has left behind plenty of memories to cherish, an array of wise words to live by, a wealth of achievements to take inspiration from. We truly hope that his soul finds solace in the heavens above.

Dear readers, they say, "time is a great healer", but to me, every passing moment gets me closer to Shakil Akhter, spiritually and emotionally. I know well, this is where no one can help you but one can feel sorry (in condoling)- that's what only you can do and that's what only we all need. I, on behalf of my sister, extend a deep debt of gratitude to all of you. And I sanguinely request with hope, you would remember and pray for Shakil’s soul (maghfirat) as keenly as you did (pray) for his recovery during his ailing days. Your overwhelming support reminds all our family members to smile again.

Thank you all!

PS: The writer has intentionally used ‘present tense’ writing this obituary, because he believes Shakil Akhter ‘IS’ and not ‘WAS’.

POWER & GREED OF THE ELITE (the 1%), & SCARCITY & COERCION OF AAM AADMI (the 99%) FUEL CORRUPTION IN PAKISTAN?

MAHTAB BASHIR mahtabbashir@gmail.com 0333 53 63 248 ISLAMABAD In my exploration of the socio-political landscape, I have come to a rather s...